Pages

Tuesday 10 April 2018

اس رنگ سے اٹھائی کل اس نے اسدؔ کی نعش دشمن بھی جس کو دیکھ کے غم ناک ہو گئے

رونے سے اور عشق میں بیباک ہو گئے
دھوئے گئے ہم اتنے کہ بس پاک ہو گئے
صرف بہائے مے ہوے آلات مے کشی
تھے یہ ہی دو حساب سو یوں پاک ہو گئے
رسوائے دہر گو ہوئے آوارگی سے تم
بارے طبیعتوں کے تو چالاک ہو گئے
کہتا ہے کون نالۂ بلبل کو بے اثر
پردے میں گل کے لاکھ جگر چاک ہو گئے
پوچھے ہے کیا وجود و عدم اہل شوق کا
آپ اپنی آگ کے خس و خاشاک ہو گئے
کرنے گئے تھے اس سے تغافل کا ہم گلہ
کی ایک ہی نگاہ کہ بس خاک ہو گئے
اس رنگ سے اٹھائی کل اس نے اسدؔ کی نعش
دشمن بھی جس کو دیکھ کے غم ناک ہو گئے
از مرزا اسد اللہ خان غالب
MIRZA GHALIB 1797-1869 Delhi

No comments:

Post a Comment