Pages

Tuesday 19 June 2018

برقِ زمانہ دور تھی لیکن مشعلِ خانہ دور نہ تھی---- ہم تو ظہیر اپنے ہی گھر کی آگ میں جل کر خاک ہوئے


موسم بدلا رت گدرائی اہل جنوں بے باک ہوئے
فصل بہار کے آتے آتے کتنے گریباں چاک ہوئے
گل بوٹوں کے رنگ اور نقشے اب تو یوں ہی مٹ جائیں گے
ہم کہ فروغ صبح چمن تھے پابند فتراک ہوئے
مہر تغیر اس دھج سے آفاق کے ماتھے پر چمکاؤ
صدیوں کے افتادہ ذرے ہم دوش افلاک ہوئے
دل کے غم نے درد جہاں سے مل کے بڑا بے چین کیا
پہلے پلکیں پر نم تھیں اب عارض بھی نمناک ہوئے
کتنے الھڑ سپنے تھے جو دور سحر میں ٹوٹ گئے
کتنے ہنس مکھ چہرے فصل بہاراں میں غم ناک ہوئے
برق زمانہ دور تھی لیکن مشعل خانہ دور نہ تھی
ہم تو ظہیرؔ اپنے ہی گھر کی آگ میں جل کر خاک ہوئے
(ظہیر کاشمیری)

No comments:

Post a Comment