| رونے سے اور عشق میں بےباک ہو گئے |
| دھوئے گئے ہم ایسے کہ بس پاک ہو گئے |
| صرفِ بہائے مے ہوئے آلاتِ میکشی |
| تھے یہ ہی دو حساب، سو یوں پاک ہو گئے |
| رسوائے دہر گو ہوئے آوارگی سے تم |
| بارے طبیعتوں کے تو چالاک ہو گئے |
| کہتا ہے کون نالۂ بلبل کو بے اثر |
| پردے میں گل کے لاکھ جگر چاک ہو گئے |
| پوچھے ہے کیا وجود و عدم اہلِ شوق کا |
| آپ اپنی آگ کے خس و خاشاک ہو گئے |
| کرنے گئے تھے اس سے تغافل کا ہم گلہ |
| کی ایک ہی نگاہ کہ بس خاک ہو گئے |
| اس رنگ سے اٹھائی کل اس نے اسدؔ کی نعش |
| دشمن بھی جس کو دیکھ کے غم ناک ہو گئے |
No comments:
Post a Comment