عاصمہ شیرازی کا کالم: کہانی بڑے گھر کی

  • عاصمہ شیرازی
  • صحافی
عمران خان، قمر جاوید باجوہ

،تصویر کا ذریعہRADIO PAKISTAN

طاقت کے کھیل میں لڑائی کے اُصول طے کیے جاتے ہیں۔ دیکھا جاتا ہے کہ کس وقت پر کس رِنگ میں کون سے پہلوان اُتارنے ہیں، کیسی ٹیم کھلانی ہے اور جیتنے کے لیے کیا لائحہ عمل طے کرنا ہے۔ اچھے کپتان ساری توقعات کسی ایک کھلاڑی سے نہیں لگاتے بلکہ ہر ایک کا بیک اپ ضرور رکھتے ہیں۔

بُرا ہو ستاروں کی چال کا، نہ عطارد زوال پذیر ہوتا، نہ ہی زُحل اپنے خانے سے نکل کھڑا ہوتا، نہ سُورج اپنی جگہ بدلتا اور نہ ہی چاند نمودار ہوتا۔ بس سُورج کی جگہ بدلنے کی دیر تھی کہ اثرات ظاہر ہونا شروع ہو گئے اور انھی گھڑیوں میں زوال کا وقت حاوی ہوا اور اب سُورج پھر بڑے گھر میں ہے۔

سیاست اور کھیل میں بس یہی فرق ہے کہ سیاست میں ہر ستارے کو اپنے آنگن میں اُتارنے کی کوشش کی جاتی ہے اور زوال کے وقت صبر جبکہ عروج کے لیے تگ و دو کی جاتی ہے۔

موجودہ ’پراجیکٹ تبدیلی‘ کے لیے ہر جتن کیا گیا۔ بڑے گھر نے سارے انڈے ایک ٹوکری میں ڈال لیے تو چھوٹے گھر نے بھی سارا جُوا ایک ہی شخصیت پر لگا دیا۔ نتیجہ یہ کہ دونوں اس وقت دل گرفتہ ہیں اور جنتری سے نئے منتر نکالنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔

گذشتہ دو ہفتوں سے وطن عزیز میں جاری ’سمری اننگ‘ کا نتیجہ جو بھی نکلے ایک بات تو طے ہے کہ ہاتھوں سے کبوتر نکالتے نکالتے طوطے اُڑائے جا چُکے ہیں۔ اب ایک طرف کمانیں تبدیل ہو رہی ہیں تو دوسری جانب الوداعی ملاقاتیں۔۔۔ یہ تو طے ہے کہ ادارہ کبھی اپنے ’باس‘ کو بائے پاس نہیں کرتا اور نہ ہی فیصلے واپس لیے جاتے ہیں۔ پہلے کبھی ہوا نہیں اور اب بھی ایسا سوچا نہیں جا سکتا۔

عاصمہ شیرازی کے دیگر کالم پڑھیے

ہونی کو کون ٹال سکتا ہے کچھ ادارے کے پاس تقرریوں کے لیے وقت کی قلت اور کچھ بگڑی ہوئی چیزوں کو درست کرنے کا احساس، دن بہ دن بگڑتی معیشت اور آنے والے دنوں میں مزید اہم تعیناتیاں۔۔۔

سیاسی جماعتیں ہوں یا عدالتی معاملات وقت آ گیا ہے کہ بگاڑ کو سُدھار کی جانب لے جایا جائے۔ ادارے کے لیے اہم یہی تھا کہ وقت اور حالات کے پیش نظر فیصلے کیے جائیں مگر یہ خیال نہ تھا کہ فیصلے پر فیصلہ بھی سُنایا جائے گا؟ یہ دھچکا بہرحال لگ چُکا ہے، اب اس دھچکے کے بعد کیا ہو گا یہ وہ سوال ہے جو اسلام آباد میں ہر جگہ پوچھا جا رہا ہے۔

قمر جاوید باوجوہ، فیض حمید

،تصویر کا ذریعہ