رخصت ہوا تو آنکھ ملا کر نہیں گیاوہ کیوں گیا ہے یہ بھی بتا کر نہیں گیاوہ یوں گیا کہ باد صبا یاد آ گئیاحساس تک بھی ہم کو دلا کر نہیں گیایوں لگ رہا ہے جیسے ابھی لوٹ آئے گاجاتے ہوئے چراغ بجھا کر نہیں گیابس اک لکیر کھینچ گیا درمیان میںدیوار راستے میں بنا کر نہیں گیاشاید وہ مل ہی جائے مگر جستجو ہے شرطوہ اپنے نقش پا تو مٹا کر نہیں گیاگھر میں ہے آج تک وہی خوشبو بسی ہوئیلگتا ہے یوں کہ جیسے وہ آ کر نہیں گیاتب تک تو پھول جیسی ہی تازہ تھی اس کی یادجب تک وہ پتیوں کو جدا کر نہیں گیارہنے دیا نہ اس نے کسی کام کا مجھےاور خاک میں بھی مجھ کو ملا کر نہیں گیاویسی ہی بے طلب ہے ابھی میری زندگیوہ خار و خس میں آگ لگا کر نہیں گیاشہزادؔ یہ گلہ ہی رہا اس کی ذات سےجاتے ہوئے وہ کوئی گلہ کر نہیں گیا
SHAHZAD AHMAD
1932-2012
Lahore
No comments:
Post a Comment