Pages

Tuesday, 21 January 2020

میری تنہائی کی پگڈنڈی پر میرے ہمراہ خدا رہتا ہے

دھیان دستک پہ لگا رہتا ہے
اور دروازہ کھلا رہتا ہے
کسی ملبے سے نہیں پر ہوتا
میرے اندر جو خلا رہتا ہے
کھینچتا ہے وہ لکیریں کیا کیا
اور پھر ان میں گھرا رہتا ہے
ہم کو خاموش نہ جانو صاحب
اندر اک شور بپا رہتا ہے
مجھ کو دے دیتا ہے گہرے پانی
خود جزیروں پہ بسا رہتا ہے
میری تنہائی کی پگڈنڈی پر
میرے ہمراہ خدا رہتا ہے
خاک بھی رہتی نہیں انساں کی
نام پتھر پہ کھدا رہتا ہے
رنگ و بو بھرتے ہیں اس کا پانی
مزبلے پر جو پڑا رہتا ہے
قمقمے رہتے ہیں روشن بیتابؔ
دل ہی کم بخت بجھا رہتا ہے

No comments:

Post a Comment