پتا چلا کوئی گرداب سے گزرتے ہوئے
نہ بند ہوتے ہوئے باب سے گزرتے ہوئے
کہ یہ تو رکھتا پریشان ہی مجھے شب بھر
میں جاگ اٹھا ہوں ترے خواب سے گزرتے ہوئے
میں اپنے دل کے اندھیروں کو یاد رکھتا ہوں
ترے بدن کی تب و تاب سے گزرتے ہوئے
ہوائے خوف خزاں میں لرزتا رہتا ہوں
کسی بھی وادئ شاداب سے گزرتے ہوئے
مجھے جو ملتی نہیں دشمنوں کی خیر خبر
تو پوچھ لیتا ہوں احباب سے گزرتے ہوئے
زمیں پہ دیکھتا ہوں آب میں گلاب رواں
اور آسمان پہ سرخاب سے گزرتے ہوئے
میں چھوڑ آیا ہوں پیچھے ہزارہا مینڈک
سخن سرائی کے تالاب سے گزرتے ہوئے
مجھے تو ایک بہانہ ہی چاہیئے تھا فقط
کہ ڈوب جاؤں گا پایاب سے گزرتے ہوئے
No comments:
Post a Comment