Pages

Tuesday, 30 April 2019

مجھے جو ملتی نہیں دشمنوں کی خیر خبر تو پوچھ لیتا ہوں احباب سے گزرتے ہوئے

پتا چلا کوئی گرداب سے گزرتے ہوئے
نہ بند ہوتے ہوئے باب سے گزرتے ہوئے
کہ یہ تو رکھتا پریشان ہی مجھے شب بھر
میں جاگ اٹھا ہوں ترے خواب سے گزرتے ہوئے
میں اپنے دل کے اندھیروں کو یاد رکھتا ہوں
ترے بدن کی تب و تاب سے گزرتے ہوئے
ہوائے خوف خزاں میں لرزتا رہتا ہوں
کسی بھی وادئ شاداب سے گزرتے ہوئے
مجھے جو ملتی نہیں دشمنوں کی خیر خبر
تو پوچھ لیتا ہوں احباب سے گزرتے ہوئے
زمیں پہ دیکھتا ہوں آب میں گلاب رواں
اور آسمان پہ سرخاب سے گزرتے ہوئے
میں چھوڑ آیا ہوں پیچھے ہزارہا مینڈک
سخن سرائی کے تالاب سے گزرتے ہوئے
مجھے تو ایک بہانہ ہی چاہیئے تھا فقط
کہ ڈوب جاؤں گا پایاب سے گزرتے ہوئے
کہاں چلی گئیں کرکے یہ توڑ پھوڑ ظفرؔ
وہ بجلیاں مرے اعصاب سے گزرتے ہوئے

No comments:

Post a Comment