سحر ہی آئی نہ وہ شاہد سحر آیا
غبار شب کا مسافر ہی میرے گھر آیا
تھکن کی دھوپ ڈھلی بھی نہیں تھی سر سے ابھی
عذاب حکم سفر مجھ پہ پھر اتر آیا
دیا جلاتے ہوئے ہاتھ کانپتے کیوں ہیں
کہاں سے خوف بدن میں ہوا کا در آیا
یہ لمحہ لمحہ بکھرتی ہوئی انا کا وجود
نہ یہ زمین نہ وہ آسماں نظر آیا
ردا رہی نہ بدن پر کوئی قبا شاداب
یہ کون دھوپ میں دیکھو برہنہ سر آیا
بدن تمام ہوا ہے لہو لہان مرا
نئی رتوں کا مسافر بہ چشم تر آیا
بہت عزیز ہے اپنے وطن کی خاک ہمیں
جو خواب آنکھوں میں آیا وہ معتبر آیا
No comments:
Post a Comment