(ظہیر کاشمیری)موسم بدلا رت گدرائی اہل جنوں بے باک ہوئےفصل بہار کے آتے آتے کتنے گریباں چاک ہوئےگل بوٹوں کے رنگ اور نقشے اب تو یوں ہی مٹ جائیں گےہم کہ فروغ صبح چمن تھے پابند فتراک ہوئےمہر تغیر اس دھج سے آفاق کے ماتھے پر چمکاؤصدیوں کے افتادہ ذرے ہم دوش افلاک ہوئےدل کے غم نے درد جہاں سے مل کے بڑا بے چین کیاپہلے پلکیں پر نم تھیں اب عارض بھی نمناک ہوئےکتنے الھڑ سپنے تھے جو دور سحر میں ٹوٹ گئےکتنے ہنس مکھ چہرے فصل بہاراں میں غم ناک ہوئےبرق زمانہ دور تھی لیکن مشعل خانہ دور نہ تھیہم تو ظہیرؔ اپنے ہی گھر کی آگ میں جل کر خاک ہوئے
No comments:
Post a Comment