Pages

Tuesday, 3 April 2018

غرض شاید یہ ہے رنجورؔ قبل از موت مر جائے.... چلے ہو تم جو یوں بہر عیادت آج بن ٹھن کے



یقیناً ہے کوئی ماہ منور پیچھے چلمن کے
کہ اس کی پتلیوں سے آ رہا ہے نور چھن چھن کے
قدم کیوں کر نہ لوں بت خانے میں اک اک برہمن کے
کہ آیا ہوں یہاں میں شوق میں اک بت کے درشن کے
نہ کیوں آئینہ وہ دیکھا کریں ہر وقت بن بن کے
زمانہ ہے یہ خود بینی کا دن ہیں ان کے جوبن کے
یہ ہیں سامان آرائش جنوں میں اپنے مسکن کے
ادھر ٹکڑے گریباں کے ادھر پرزے ہیں دامن کے
ہمارے دست وحشت کب ہیں نچلے بیٹھنے والے
اڑا لیں گے نہ سارے تار جب تک جیب و دامن کے
ہماری خانہ ویرانی کی دھن کیوں باغباں کو ہے
ہمارے پاس کیا ہے چار تنکے ہیں نشیمن کے
ہمارے یار کی قیمت کو کیا تم نے نہیں دیکھا
کھڑے ہو سرو شمشاد و صنوبر! تم جو جیوں تن کے
زمانے میں کوئی ہوگا کہ بگڑی اس کی بنتی ہو
ہمارے کھیل تو سارے بگڑ جاتے ہیں بن بن کے
کوئی خورشید سیما آ رہا ہے فاتحہ پڑھنے
ضرورت شمع کی اب کیا سرہانے میرے مدفن کے
خبر لے اب ذرا اپنی صفائی قلب کی زاہد
گنے گا داغ کب تک تو مرے آلودہ دامن کے
زباں سے کہنے سے حاصل کہ تجھ سے انس ہے مجھ کو
سمجھتا ہے مرا دل خوب اشارے تیرے چتون کے
جو وا بھی ہو قفس کا در تو ہم اس سے نہ ہوں باہر
نہیں دل میں ہمارے ولولے اب سیر گلشن کے
گریباں چاک آنکھیں سرخ برہم کاکل پیچاں
یہ کیا صورت بنائی ہائے تم نے غم میں دشمن کے
مرا ہوں اک بت غارت گر دیں کی محبت میں
کفن میرا سلے تاروں سے زنار برہمن کے
خزاں اور نغمے شادی کے بہار آئے تو گا لینا
یہ دن تو اے عنادل ہیں تمہارے شور و شیون کے
جو ہو باران رحمت مزرع اغیار کے حق میں
وہی برق غضب ہو آہ حق میں میرے خرمن کے
دل ناداں کی ہے کیا اصل اگر بقراط بھی ہوتا
تو آتا وہ بھی دم میں اس بت عیار و پر فن کے
حسینان جہاں کے ڈھنگ دنیا سے نرالے ہیں
کہ ہوتے ہیں یہ دشمن دوست کے اور دوست دشمن کے
انہیں ہرگز یہ دل اپنا کہ شیشے سے بھی نازک ہے
نہ دیں گے ہم کہ ان میں ڈھنگ ابھی تک ہیں لڑکپن کے
غم دنیا و دیں سے اب کہاں دم بھر کی بھی مہلت
ہماری فارغ البالی سدھاری ساتھ بچپن کے
گیا تھا رات واعظ میکدے میں وعظ کہنے کو
مگر نکلا وہ کوئی شے چھپائے نیچے دامن کے
نہ جانیں اس میں تھی کیا مصلحت صناع بے چوں کی
دل ان سیمیں تنوں کے کیوں بنائے سنگ و آہن کے
اگر غفلت کا پردہ دور ہو انساں کی آنکھوں سے
نظر آئیں مناظر ہر جگہ وادی و ایمن کے
تغافل کج ادائی بے وفائی عاشق زاری
بتوں کو کیا نہیں آتا یہ ہیں استاد ہر فن کے
اگر مجھ سے جدا ہونے کی تو نے ٹھان ہی لی ہے
جدائی ڈال پہلے درمیاں میرے سر و تن کے
اگر عشاق کے مقسوم میں تھا صدمۂ ہجراں
بنائے جاتے ان کے دل بھی یارب سنگ و آہن کے
وہ روٹھے ہیں تو گو مشکل نہیں ان کا منا لینا
مگر کب تک مناؤں روٹھ جاتے ہیں وہ من من کے
تمہاری مانگ اب کیا مانگتی ہے نقد دل مجھ سے
وہ ہے مدت سے قبضے میں تمہاری چشم رہزن کے
عبث اس دھن میں مہر و ماہ کھاتے پھرتے ہیں چکر
کہ ہو ان کو فروغ آگے تمہارے روئے روشن کے
غرض شاید یہ ہے رنجورؔ قبل از موت مر جائے
چلے ہو تم جو یوں بہر عیادت آج بن ٹھن کے
رنجور عظیم آبادی

RANJOOR AZIMABADI
1863-1923

No comments:

Post a Comment