بیٹھ کر وہ جہاں سے اٹھتا ہے
ایک فتنہ وہاں سے اٹھتا ہے
اس کو جا بیٹھنا جہاں ہوں وے
کب یہ دل دلبراں سے اٹھتا ہے
نالہ کرتی ہے جس گھڑی بلبل
شعلہ اک آشیاں سے اٹھتا ہے
منہ کو مت کھول ورنہ عالم کے
پردہ راز نہاں سے اٹھتا ہے
بیٹھتا ہے وہ جنگ جو جس جا
لڑ کے آخر وہاں سے اٹھتا ہے
شور محشر کہیں ہیں جس کے تئیں
میرے شور و فغاں سے اٹھتا ہے
کشتۂ عشق یوں نہیں ٹلتا
مر کے کوئے بتاں سے اٹھتا ہے
جو کہ پتھر سا جم کے بیٹھے ہے
کب ترے آستاں سے اٹھتا ہے
مصحفیؔ مت بہت رقیب کو چھیڑ
وہ کوئی درمیاں سے اٹھتا ہے
شاعر
مصحفی غلام ہمدانی
1751-1824
امروہہ
اٹھارہویں صدی کے بڑے شاعروں میں شامل، میرتقی میر کے ہم عصر
No comments:
Post a Comment