میں اس خیال میں تھا بجھ چکی ہے آتش درد
بھڑک رہی تھی مرے دل میں جو زمانے سے
میں اس خیال میں تھا ہو چکی ہے آگ وہ سرد
وہ ایک شعلۂ درد آفریں متاع حیات
میں اس خیال میں تھا میں اسے بچا نہ سکا
گماں یہ تھا کہ وہ اک شعلۂ حیات افروز
ہوائے پیرس و لندن کی تاب لا نہ سکا
میں سوچتا تھا کہ شاید بھلا چکا ہوں تجھے
جو اپنے دل کی کہانی تجھے سنانا تھی
وہ اپنے ساز غزل پر سنا چکا ہوں تجھے
کچھ ایسا مجھ کو گماں تھا طفیل مرہم وقت
کوئی بھی گھاؤ ہو اک روز بھر ہی جاتا ہے
زمانہ وقت کے پردے پہ ہر گھڑی شاید
نیا طلسم نئی دل کشی سجاتا ہے
جو ہیں رفیق دل و جان ان آنسوؤں کی قسم
ترے حضور ابھی تک جو بار پا نہ سکے
جنہیں ہے تجھ سے سوا تری آبرو کا خیال
جو دل میں رک نہ سکے اور مژہ تک آ نہ سکا
ملا ہوں آج میں تجھ سے تو وسوسے یہ تمام
مٹے خیال کی دنیا سے مثل نقش بر آب
پتہ چلا کہ وہ شعلہ بجھا نہیں ہے ابھی
بس اتنی بات ہے اب جل رہا ہے زیر نقاب
نقاب وقت و مسافت کے دو دبیز حجاب
گزر گئی تری فرقت میں زندگی جتنی
عدن کی صبح کہ پیرس کی رات میں گزری
دل و نظر کے کسی واردات میں گزری
کہ اک حسینۂ عالم سے بات میں گزری
فقط وہ ایک ندامت ہے اور کچھ بھی نہیں
اور آج میری ندامت کا یہ شدید احساس
ہر ایک سانس میں مجھ سے سوال کرتا ہے
ہوس ہے عشق سے کتنے قدم؟ دو چار قدم؟
کیا ہے فاصلہ ان میں کئی ہزار قدم؟
پکیڈلی میں بھی ہم یاد تھے تجھے کہ نہ تھے
پگال میں بھی خلش کوئی دل میں تھی کی نہ تھی
وہ شام ٹیمز کی اب بھی نظر میں ہے کہ نہیں
کہ جب ہوس کی نظر پر کوئی حجاب نہ تھا
وہ سطح بحر پہ رقصاں جہاز کا عرشہ
اور اس پہ چار طرف ایک نور کا عالم
کہ جیسے برق تجلی طور کا عالم
ویلنشیا میں وہ رقص برہنگی کے طلسم
تری نگاہ تماشا کو کچھ جھجک تو نہ تھی
یہ اک سوال کہ جس کے ہزار پہلو ہیں
میں ایک لمحے کو جب ان پہ غور کرتا ہوں
تو سوچتا ہوں کی میں تجھ سے اب ملوں نہ ملوں
No comments:
Post a Comment