دلوں پہ چھانے لگا دھڑکنوں کی جان ہوا
جب ایک عمر گزاری تو میں جوان ہوا
جو بولتا تھا تو مجھ سے شکایتیں تھی بہت
میں چپ ہوا تو اسے خوف کا گمان ہوا
سفر کا حوصلا رکھتا ہے اڑ بھی سکتا ہے
یہ اور بات پرندہ لہولہان ہوا
یہی سبب ہے کہ ہر دل میں جا کے بستا ہے
مکان جس نے بنائے وہ لا مکان ہوا
کوئی تو ہے جو حمایت میں حق کی نکلا ہے
خدا کا شکر کہ کوئی تو ہم زبان ہوا
چلو کہ پہرے اٹھا دیں ہم اپنے جینے سے
یہ روز قسطوں میں مرنا عذاب جان ہوا
فلک کے چاند ستاروں پہ آ گئی رونق
زمیں سے کس کا سفر روئے آسمان ہوا
وہ ایک پیارا سا منظر ہے میری آنکھوں میں
لڑے کھلونوں پہ بچے میں درمیان ہوا
No comments:
Post a Comment